Wednesday, 24 June 2020

 چُنندہ  افسانچے


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک ( انڈیا)
 +918105493349
+917019759431

لال رنگ کی بوتل



چائے کی پیالی لیتے ہوئے ،میں نے صاحبِ مکان سے کہا ۔ ۔ آپ نے مکان بڑا شاندار بنوایا ہے ۔ ۔۔ ! وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگےہاں صاحب بس جیسے تیسے بن گیا ۔ ۔ ۔ ۔! اچانک میری نظر گیٹ پر پڑی ۔ ۔ جہاں لال رنگ کی بوتلیں جگہ جگہ رکھی ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ میں ان بوتلوں کی طرف مسلسل دیکھتا جا رہا تھا۔۔ ۔میری پریشانی دیکھ صاحب مکان بولے آپ ان لال رنگ کی بوتلوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں نا ۔ ۔ ۔ ؟میں نے کہا جی ہاں ۔ ۔!کہنے لگے بھائی صاحب ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے ۔ ۔ اگر گھر کے سامنے لال رنگ کی بوتلیں رکھی جائیں ۔ ۔ تو ان بوتلوں کے اثر سے کتے ان کے قریب بھی نہیں آئیں گے ۔ ۔ ۔ میں بڑا حیران ہوا ۔ ۔ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ ایسی دو چار بوتلیں مجھے بھی گھر لے چلنی چاہیئے ،کمبخت کتوں نے بڑا پریشان کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ اسی سوچ میں تھا کے ایک سیاہ رنگ کا کتا آیا اور اسی لال رنگ بوتل پر ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے لگا ۔ ۔ ۔ اس منظر کو ہم دونوں نے دیکھا۔۔۔ مگر میں نے اَن دیکھی کر دی اور خاموشی سے چائے پیتا رہا ۔ ۔ صاحب مکان بولے جناب لگتا ہے۔۔۔! یہ کتا " رنگوں کے اندھے پن" Colour Blindness کے مرض میں مبتلہ ہے جس کی وجہ سے وہ سرخ رنگ میں تمیزنہ کرسکا ۔ ۔ ۔میں نے بھی صاحب مکان کی ہاں میں ہاں ملائی اور گھر لوٹ آیا۔۔۔۔۔۔۔

تعلیم ایک تجارت


" دبئی سے لوٹے، میرے ایک قریبی دوست نے مجھ سے پوچھا ۔ ۔ ۔ یار میں کوئی بزنس شروع کرنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ کوئی تجویز ہو تو بتاؤ ۔ ۔ ۔ ؟ میں نے کہا ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کے کسی بھی محلے میں انگریزی میڈیم اسکول شروع کروا دو ۔ ۔ ۔ !یہ ایسی تجارت ہے جو تمہیں بہت بڑا تاجر بنا دے گی ۔ ۔ ۔ ! "

ان پڑھ کسان


ان پڑھ کسان نے شکایتاً مجھ سےکہا ۔ ۔ ۔!جناب میں گاؤں کی اُردو اسکول سے تنگ آچکا ہوں۔۔۔!اس بار بھی میرا لڑکا اول نمبر سے کامیاب ہوگیا ہے۔۔۔!میں نے کہا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے ۔۔۔!کہنے لگا خاک خوشی کی بات ہے۔۔۔!مجھے ڈر ہے اگریہ اسی طرح اول نمبر سے کامیاب ہوتارہا ،تو ایک دن ڈاکٹر یا انجنیر بن جائے گا۔۔۔! پھر میرے مویشیوں کو چارہ، کھیتوں میں ہل کون چلائے گا ۔۔۔؟میں نے کہا پھر آپ یوں کیجئے شہر کے کسی انگریزی میڈیم اسکول میں اپنے بچے کا داخلہ کروادیں۔۔۔نو۔۔دس۔۔ سال تک اسکول آپ کے بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو تباہ کرکے آپ کو لوٹا دے گا ۔۔۔پھر چاہے آپ ہل چلوایں یا چاراکٹوائیں یہ آپ کی مرضی۔۔۔۔!

عقلمند بے وقوف


انگریزی تعلیم یافتہ ایک صاحب ۔ ۔ حج سے لوٹے اپنے کسی سسرالی رشتہ دار کے یہاں پہنچے ۔ ۔ ۔ حاجی صاحب نے گھر آئے داماد کو کچھ کھجوریں اور پانی پیش کیا ۔ ۔ ۔ ! داماد نے پانی کا پیالہ ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا ۔ ۔ ۔ ؟ کیا یہ پانی فلٹر کا ہے۔ ۔ ۔ ؟ حاجی صاحب بولے داماد جی یہ زمزم کا پانی ہے ۔ ۔ ۔ ! داماد کہنے لگا ۔ ۔ وہ سب تو ٹھیک ہے مگر فلٹر تو ہے نا ۔ ۔ ۔ ؟حاجی صاحب کو داماد کی جہالت پر بہت غصہ آیا اور وہ خاموشی سے اندر چلے گئے ۔ ۔ ۔ !

نئے کپڑے


چھٹیاں گزارنے،جب بیوی ۔ ۔ ۔ بچوں سمیت میکے چلی گئ، تو حامد نے کمرے پر ایک نظر دوڑائی ۔ ۔ دیکھا ۔ ۔ ! نظروں سے کپڑے لتوں کا ایک وسیع انبار غائب تھا ۔ ۔ ! اگر کچھ باقی تھا تو صرف حامد کے چھید سے بھری بنیانیں ۔ ۔ ۔ !شادی کے دو چار پرانے جوڑے ۔ ۔ ! جسے حامد نے ہمیشہ نیا سمجھ کر ہی پہنا تھا ۔ ۔ ۔الماری سے جھانکتی کالر کٹی داغ دار قمیصیں ۔ ۔ ۔ اس نے دل میں ارادہ کیا اگلی عید پر اپنے لئے ضرور کپڑے خریدے گا ۔ ۔ ۔ ! پھر گھر کی ضروریات ۔ ۔ بچوں کی پڑھائی ۔ ۔ ۔ ماں کی دوائی اور ایسے کئی اخراجات نے ۔ ۔ کپڑوں کا خیال دل سے نکال دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ! حامد کسی گہری سوچ و فکر میں کام پر نکل پڑا ۔ ۔ ۔ !


اولاد کا غم


جب صادقہ اپنے معصوم بچوں سمیت روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی ۔ ۔ ۔! تب باپ کو بیٹی کے دکھوں کا احساس ہوا ۔ ۔ ۔ ورنہ وہ تو روزانہ صادقہ کے واٹس ایپ اسٹیٹس پر ہنستی مسکراتی تصویریں دیکھ کر یہی سوچا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ کہ اس کی بیٹی خوشحال زندگی بسر کر رہی ہے ۔ ۔ ۔ پر افسوس ایسا کچھ نہیں تھا ۔ ۔ ! رنج میں ڈوبے باپ نے زور سے اپنے سینے کو دبوچا اور دھڑام سے زمین پر گر پڑا ۔ ۔ ۔ !

فارمی مرغی! ۔۔یا۔۔دیسی مرغی۔۔!

مہمان نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالتے ہی بے ساختہ کہا ۔ ۔ ۔ ۔ !وااااہ کیا لذیذ کھانا بنا ہے ۔ ۔ ۔ کہیں یہ دیسی مرغی تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ؟ میں نے کہا جی ۔ ۔ ۔ میزبان کہنے لگے میں نے اور میرے اہل خانہ نے سینکڑوں فارمی مرغیاں چٹ کی ہیں،مگر جو مزہ دیسی مرغی میں ہے وہ فارمی مرغیوں میں ہے ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ! میں نے کہا فارمی مرغیوں میں چند چیزوں کی کمی ہوتی ہے،جس کی وجہ سے وہ لذیذ نہیں ہوتیں ۔ ۔ ۔مہمان حیران ہوکر پوچھنے لگے اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کیا ہیں۔ ۔ ؟ میں نے کہا تربیت ، ہمت ، محنت ۔ ۔ ۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کے آپ فارمی مرغیوں کو دیکھئے بیچاری یتیم بھی ہوتی ہیں اور لتیم بھی ۔ ۔ جس کی وجہ سے وہ شروع سے ہی تربیت سے محروم رہتی ہیں۔ ۔ ۔ دانا پانی کے لئے انہیں کسی طرح کی مشقت کی ضرورت نہیں ۔ ۔ جس کی وجہ سے ان میں سستی کاہلی آجاتی ہے۔۔اور یہ مرغیاں بزدل اتنی ہوتی ہیں۔۔۔ کے اگر بلی یا کتا ذرا سا جھپٹا مارے تو دل کے دورے سے مر جاتی ہیں ۔ ۔اس کے برخلاف آپ دیسی مرغی کو لیں ، مسلسل 21 دن تک مرغی انڈوں کو ممتا بھرے پروں کے آنچل میں دبائے رکھتی ہے۔۔۔جب بچے انڈوں سے نکلتے ہیں تو پہلے ہی دن سے مرغی اپنے چوزوں کو ہمت کا درس دیتی ہے کہ کس طرح دشمن سےمقابلہ کیا جائے، آپ نے دیکھا ہوگا اگر کوئی کتا یا بلی جھپٹا مارنے کی کوشش کرے تو مرغی اس پر حملہ کر دیتی ہے ،ایک عرصہ تک مرغی اپنے چوزوں کو ساتھ رکھ کر دانا چگنا سکھا تی ہے اور ان کی مکمل تربیت کرتی ہے، یہی چوزے جب تھوڑے بڑے ہوجائیں تو اپنی طاقت کا جوہر دکھانے کے لئے لڑائی بھی لڑتے ہیں۔۔اور ان میں سے بعض تو پیشہ وارانہ لڑاکو مرغ بن کر اپنا اور اپنے مالک کا نام روشن کر دیتے ہیں ۔۔۔میری اس گنجلک تقریر کے بعد مہمان نے بڑے ہی معصومانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔اب میں سمجھا ۔۔۔۔! میں اور میرے بچے تن آساں، سست، کاہل اور بزدل کیوں ہیں۔۔۔۔یہ سب اسی فارمی مرغیوں کے صفات ہیں جو ہمارے اندر آچکے ہیں۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے ان کا دھیان سالن کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔لیجئے نا آپ تو کچھ لے ہی نہیں رہے۔۔۔۔۔!


رنگین بال


گلی کے نکڑ پہ شیشوں سے چمچاتتی نائی کی دکان پر ،میں بال کٹوانے کے لئے گیا۔۔۔ دیکھا ۔ ۔ ۔ ! ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا اپنے ٹیڑے میڑے بال۔۔ بڑے شوق سے رنگین کروا رہاتھا۔ ۔ ۔! جیسے ہی یہ کام مکمل ہوا، تو لڑکے نےجیب سے ۵٠٠ کے دو نوٹ نکالے اور نائی کےحوالے کرکےچلا گیا ۔ ۔ میں نے نائی سے کہا۔۔۔ بال تو ادھیڑ عمر کے لوگ ، اپنا بڑھاپا چھپانے کے لئے رنگین کرواتے ہیں،مگر اس بچے نے تو ابھی سے رنگنے شروع کر دئے ۔۔ ۔!نائی کہنے لگا صاحب۔ ۔ ۔ ! دولت کی فراوانی، والدین کی توجہ کی کمی اور مہنگے موبائیل پر غلط کاریوں نے اسے جلدہی بوڑھا کر دیا ہے۔۔۔۔!

پٹاخوں کا شور


پٹاخوں کے شور سے بیزار ۔ ۔ ۔میں ذہنی سکون کے لئےکھیتوں کی طرف چلا آیا۔۔۔
کیا دیکھتا ہوں۔۔۔۔تھوڑے ہی فاصلے پر میری ہی برادری کہ ایک بڑے میاں۔۔۔جو وضع قطع سے پکے مسلمان ، صوم صلاۃ کے پابند ۔۔۔ایک ہاتھ میں اگربتی اور دوسرے ہاتھ میں پٹاخوں کی لڑی لئے اچھال رہے ہیں۔۔۔۔
یہ منظر دیکھ کر میں سوچ میں پڑھ گیا آخر ان بڑے میاں کو کیا ہوا۔۔۔۔؟ کیا انہوں نے بھی کوئی بت بٹھا رکھا ہے۔۔۔۔؟ میرے اندر کے چھپے ہوئے ناصح نے آواز دی ، اور کہا ۔ ۔ ۔ جاؤ ان بڑے میاں کو خوب نصیحت کرو ۔ ۔ ۔
اوبڑ کھابڑ راستے سے ہوتا ہوا میں بڑے میاں کے قریب جا کر پہنچا ۔ ۔۔۔۔
ابھی کچھ بولا بھی نہیں تھا کہ مکئی کے کھیت سے بندروں کی ایک ٹولی پٹاخوں کے شور سے گاؤں کی طرف بھاگ رہی تھی ۔۔ ۔ ۔
بڑے میاں کہنے لگے بیٹا کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ؟
میں نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں او کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ بس یوں ہی گھومنے آیا تھا ۔ ۔۔۔
میں اپنی نادانی پر بڑا پشیمان ہوا ۔ ۔ اور میرے اندر کے چھپے اُسی ناصح نے دھیمی سی آواز میں مجھے نصحیت کی کہ بد گمانی سے بچو یہ انسان کو رسوا کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔!

این آر سی یا قوم کی بے بسی


اخبار کا پہلا صفحہ پلٹتے ہوئے،۔۔۔احمد نےلمبا سانس بھرا ۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔۔۔!
میں نے کہا ۔۔سب خیرت تو ہے۔۔۔۔؟
کہنے لگا ،۔۔۔اب سارے ملک میں " این آر سی" لاگو کیا جائے گا۔۔۔۔۔!
این آر سی "۔۔۔۔کیا ہے یہ "این آر سی"۔۔۔۔۔۔۔؟
کہنے لگا۔۔۔ 1951 سے ہمارے اجداد اور ہم اسی ملک کے شہری ہیں یہ ثابت کرنا ہوگا۔۔۔۔۔
میں نے کہا ۔۔۔اس کے لئے کیا کرنا ہوگا۔۔۔۔؟
کہنے لگا آبا و اجداد کے زمینوں کے کاغذات، ان کی تعلیمی اسناد وغیرہ بطور ثبوت حکومت کو پیش کرنی پڑینگی ۔۔۔۔
میں اسی فکر میں گھر آیا ۔۔،اور سیدھے مکان کی تیسری منزل پر گیا۔۔۔جہاں بہت ساری پرانی اور بوسیدہ چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔۔۔جہاں اکثر کوئی آتا جاتا بھی نہیں ہے ۔۔۔۔
مجھے دادا کی اس پرانی صندوق کی تلاش تھی ۔۔،جس کے متعلق میرا یہ گمان تھا شاید یہاں کچھ اسناد وغیرہ مل جائیں گی ، ۔۔۔۔
جوں ہی چیزوں کو ٹٹولنا شروع کیا ۔۔۔۔
اچانک میری نظر اس صندوق پر پڑی ۔۔۔جس پر سالوں کی جمی دھول کی ایک موٹی سی پرت تھی۔
جیسے ہی صندوق کھولا ۔۔۔اس میں ایک پھٹی پرانی دستار اور کچھ بوسیدہ کپڑے،پیتل اور تانبے کی کچھ چیزیں، پرانی تصویریں جس میں میرے خاندان کے بہت سارےافرادتھے،جن میں سے اکثر و بیشتر فوت بھی ہوچکے تھے۔۔
اسی کے نیچے تانبے کی تختی پر کنندہ شجرہ نسب ، زمین کے کاغذات ،اور دادا کی اسکول کی سند تھی۔۔۔
یہ ساری چیزیں دیکھ کر میں نے وہیں سے احمد کو فون کیا۔۔۔۔
احمد مجھے " این آر سی" والے سارے کاغذات مل گئے ،جس میں زمین کے کاغذات کے علاوہ ،۔۔ دادا کی اسکولی سند بھی ہے۔۔۔
احمد ۔۔۔۔اداسی بھرے انداز میں کہنے لگا مبارک ہو۔۔۔ !
تمہارے گھر والے بڑے سیانے ہیں جنہوں نے اتنی قیمتی چیزیں حفاظت سے سنبھال کر رکھی ہیں ۔۔۔


بیمار ڈاکٹر

شہر کے اسپتال میں ۔ ۔
اپنے کسی عزیز کی عیادت کے لئے پہنچا۔ ۔ ۔
مریض کو تلاش کر ہی رہا تھا کہ ۔۔۔
اچانک میری نظر، بستی کے معروف ڈاکٹر پر پڑی جو درد سے کراہ رہے تھے ۔ ۔
میں نے پوچھا۔۔۔
آپ اور یہاں۔۔۔؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ !کیوں کیا ہوا۔۔۔؟
کہنے لگے ڈینگی بخار۔ ۔ ۔
ڈینگی بخار۔۔ وہ بھی آپ کو۔۔! وہ کیسے ۔۔ ۔ ؟
کہنے لگے وائرل انفیکشن۔۔۔
وائرل انفیکشن ۔ ۔ ۔ !
میں نے تعجب سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب میں تو یہ سمجھتا تھا یہ جتنے بھی انفیکشن اور امراض ہیں ،وہ ہم جیسے عام لوگوں پر ہی لاحق ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نےمجھے حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا، اور کسی گہری سوچ میں کھو گئے ۔ ۔

آخری گلی

روز بروز گاؤں کی اردو اسکول سے بچوں کی گھٹتی تعداد کو دیکھ کر، ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنے اساتذہ کے ساتھ میٹینگ کی، جس میں یہ تہہ پایا کہ ہر گلی محلے میں لوگوں کو جمع کر کے اردو اسکول، مادری زبان کی اہمیت کو سمجھایا جائے ،اسی غرض سے سارے اساتذہ  گلی محلوں میں گھوم  پھرکر محنت کرنے لگے،شام ہوچکی تھی آخری گلی باقی تھی، اسی گلی کے  ایک نکڑ پر اسکول کے ماہر استاد اپنی شعلہ بیان تقریر کرنےلگے۔۔۔ "بھائیوں اردو ہی وہ  واحد زبان ہے جو  ہمیں اور ہماری نسلوں کو  ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے اور ہمیں دین  سمجھنے اور جاننے میں مدد دے سکتی ہے" ، جوں جوں شام ڈھلتی گئی کھیتوں سے  لوٹنے والےتھکے ماندے کسان اس بھیڑ کا حصہ بنتے گئے۔۔۔ لوگوں کے مجمع کو دیکھ کر ماہر استاد جوش میں آ گئے ابھی ان کی تقریر جاری ہی تھی کے شہر کی طرف سے انگریزی میڈیم اسکول کی پیلے رنگ کی بس آگئی   اس بس میں سے دو ننھے منے بچے دوڑتے دوڑتے اردو کے شعلہ بیان  مقرر سے لپٹ گئے اور کہنے لگے "گوڈ ایونگ پاپا" شعلہ بیان مقرر  کا جوش تو جیسے برف کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔۔۔ لوگوں نے اساتذہ  کا،اساتذہ نے ایک دوسرے کا  چہرہ دیکھنا شروع کیا ۔۔۔ سارا مجمع بنا کچھ کہے اپنے اپنے گھروں کو چلا گیا۔۔۔۔ شاید مجمع اردو اسکول کی اہمیت کو جان گیا  ہوگا۔۔۔۔!!!!!!

No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...