Friday, 29 March 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 14
فیروز شاہ تغلق  1351 سے 1388

آفتاب عالم دستگیر پٹیل  کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

محمد تغلق کے بعد اس کا چچازاد بھائی فیرو شاہ تغلق تخت پر بیٹھا، اس نے 37 سال حکومت کی اس کا عہد ملک گیری کے لیے نہیں بلکہ رفاع عام کے کاموں کے لئے مشہور ہے ۔

فوجی مہمات

بنگال کا صوبہ محمد تغلق کے عہد میں خود مختار ہو گیا تھا اس لئے فیروز تغلق نے اس صوبہ پر دو دفعہ چڑھائی کی لیکن چنداں کامیابی نہ ہوئی اس لئے اس نے بنگال کو خودمختار تسلیم کر لیا ۔
1361 میں فیروز تغلق نے سندھ کے حاکم کو جو کہ باغی ہو گیا تھا شکست دے کر اطاعت قبول کرنے پر مجبور کیا اس نے اڑیسہ کے راجہ کو مطیع کیا اور نگرکوٹ کو باجگزار بنایا مگر اس نے دکن کو دوبارہ فتح کرنے کی بھی کوشش نہ کی ۔

انتظام سلطنت

محمد تغلق نے فتوحات کی طرف بہت دھیان نہ دیا بلکہ زیادہ توجہ ریا کی بہتری کی طرف دی اس کا نام رفاہ عام کے کارناموں کے لیے ہمیشہ یاد رہے گا ۔

اس نے محمد تغلق کے زمانہ کا تمام سرکاری قرضہ رعایا کو معاف کردیا

اس نے غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایک الگ محکمہ دیوانہ خیرات قائم کیا اور غریب لڑکیوں کی شادی کا انتظام بھی اسی محکمہ کے سپرد کیا

اس نے بوڑھے ملازموں کے لئے پینشن مقرر کی  بے روزگاروں کے لئے کام مہیا کیا

اس نے کی ہسپتال کھولے جن میں غریبوں کو دوا اور خوراک مفت دی جاتی تھی

اس نے تمام وحشیانہ سزائیں منسوخ کردی

اس نے قیدیوں کو دستکاریاں سکھاکر سوسائٹی کا مفید رکن بنایا اور غلاموں کو کام سکھا کر فوج میں ملازم رکھ لیا

اس نے زراعت کی ترقی کی طرف خاص توجہ دی اس نے دریائے جمنا اور ستلج سے نہریں  نکال کر موجودہ نہر جمن غربی  اس کے زمانہ کی یادگار ہے، اس نے مالیہ زمین کم کردیا اور وصولی لگان میں بہت نرمی کا برتاؤ کیا کاشتکاروں کو تنگ کرنے والے افسروں کو سخت سزائیں دیی

اس نے رفاہ عام کے کاموں میں خاص دلچسپی لی اس نے 854 تعمیرات کروائیں اس نے لوگوں کے لئے سڑکیں ،سراۓ، مسجدیں حمام ،ہسپتال، پل،بند، مدرسے اور مسافر خانے بنوائے، دہلی کے گرد کی باغات لگوائے اور پرانے زمانہ کی یادگاروں کی مرمت کا انتظام کیا

اس نے کی شہر آباد کئے دہلی کے قریب اپنے نام پر فیروزآباد شہر بسایا جو آج کل کوٹلہ فیروز شاہ کے نام سے مشہور ہے اس نے حصار فیروزہ اور فتح آباد کے نئے شہر بسائے اور سلطان جونا خان کے نام پر جونپور شہر آباد کیا 

اس نے طریق منصبداری جاری کیا جس کی رو سے سرداروں کو جاگیریں عطا کی اور فوجی افسروں کو نقد تنخواہ کی بجائے جاگیریں دینی شروع کی یہ اس کی بڑی سیاسی غلطی تھی کیونکہ اس سے ان کی طاقت بڑھ گئی اور انہیں بغاوت کرنے کا موقع مل گیا اور آخر یہ طریق تغلق خاندان کے زوال کا بڑا سبب بنا


فیروز تغلق بڑا رحم دل خداترس اور ہمدرد بادشاہ تھا وہ رعایا کا دلی خیرخواہ تھا وہ پکا مسلمان تھا اور شریعت کا بڑا پابند تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے عہد حکومت میں تمام ٹیکس منسوخ کر دیے جو اسلامی شریعت کے خلاف تھے اس کا سلوک ہندوؤں اور شیعوں کے ساتھ اچھا نہ تھا وہ فن سپاہ گری میں قابل نہ تھا مگر فن تعمیر میں  اسے خاص دلچسپی تھی اس کے نظام حکومت کے کاموں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے تغلق خاندان کا بلند مرتبہ بادشاہ خیال کیا جاتا ہے،فیروز تغلق نے 1388 میں 90 سال کی عمر میں وفات پائی

Wednesday, 20 March 2019

دسویں کے امتحانات اور نقل مکاریاں

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک

8105493349

فکر سود و زیاں میں رہنا ہے
بس یہی اس جہاں میں رہنا ہے
کمرۂ امتحان ہے دنیا
ہر گھڑی امتحاں میں رہنا ہے

نیم ادبی محفلوں میں آپ نے لوگوں کو تبصرہ  کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہوگا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلمان بچے بہت ہی کم  نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ یہ لوگ حکومت کو ٹہراتے  ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی جس کی وجہ سے ہمارے بچے ان امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں یہ جملے کتنے سچے ہیں یہ کہنا مشکل ہے،  یوں تو اس کی سینکڑوں وجوہات ہیں اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے تو "ایس ایس ایل سی" کے امتحان میں ہونے والی نقل مکاری بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے قوم کے نونہال اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو نہیں پاتے ۔اب آپ کہیں گے کہ امتحان کی نقل مکاری اور اعلیٰ عہدوں کا کیا جوڑ ہے۔ آئیے اس نکتے کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نقل مکاری کا آغاز کب؟ اور کیسے ہوتا ہے۔
در اصل اس کی شروعات پرائمری سطح  سے ہوتی ہے،آپ ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ ہر پرائمری اسکول  کی بات کی جارہی ہے بلکہ اکثر و بیشتر  اسکولوں میں یہی حال ہے۔ اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ دورانِ امتحانات جو بچے کند ذہن ہوتے ہیں ایسے بچوں کو استاد ایسے ذہین بچوں کے ساتھ جوڑ کر بٹھا دیتے ہیں جو ان کو پرچہ دکھا کر ان کو پاس کرا سکے ہوتا یوں کے تعلیم کے مکمل ہونے تک اس طرح کے  کند ذہن بچے اپنی ہمت کھو کر ذہین بچوں کے بھروسے رہ جاتے ہیں ، اگر استاد چاہتے تو شروع سے  ہی ان بچوں کی ذہنی سطح کو پہچان کر ان ہی ذہین بچوں کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط کرواتے تو ممکن ہے ان ذہین بچوں کی صحبت سے ان بچوں میں  بھی پڑھنے کا جذبہ آجاتا  بہت ممکن تھا کے یہ بچے محنت اور لگن سے کامیاب ہو سکتے،

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

اب اگلی کڑی آتی ہے ہائی اسکول کی ، سب سے زیادہ لا پرواہی ان تین سال کے عرصے میں ہوتی ہے یوں سمجھ لیں یہ تین سال بچے کے بننے یا بگڑنے کے سال ہیں دو سال تو دھکا مکی میں گزر جاتے ہیں اور ان دو سالوں میں خود مختاری کے ساتھ بچے نقل مکاری میں ماہر ہو جاتے ہیں،اساتذہ بھی خوف اور پریشانی کے عالم میں رہتے ہیں اور ان کو ڈر رہتا ہے  کہ کہیں میرے مضمون میں یہ بچے  کم مارکس نہ لیں اس لئے امتحان بھی اتنی سختی کے ساتھ نہیں لیے جاتے اور پرچوں کی جانچ کا کیا کہنا سارے طلبہ 80 فیصد سے اوپر، جب یہی بچے دسویں جماعت تک پہنچ جاتے ہیں تو نقل مکاری میں اتنے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں۔

شعلہ ہوں، بھڑکنے کی گزارش نہيں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے، کوشش نہيں کرتا
گرتی ہوئی ديوار کا ہمدرد ہوں، ليکن
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہيں کرتا

اللہ رحم کرے اُن نجی اداروں کے مینجمنٹ پر جو پورا سال اسلامیات اور دینیات جیسے پاکیزہ کورسس میں بچوں کو دیانتداری ایمانداری کا سبق پڑھواکر آخر میں  انہیں اساتذہ کو مجبور کرکے ان سے بچوں کے لئے نقل مکاری کروائی جاتی ہے یہی مینیجمنٹ  امتحان کے نتائج کے بعد بچوں کے ریزلٹ ان کی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے بینرز پوسٹر گلی محلوں میں لٹکاتے ہیں، ارے ہمارے ادارے کا ریزلٹ تو 100 فیصد ہوگیا خاک ڈالو ایسے نتیجے پر جو بچوں کو محض سرٹیفیکٹ میں تو کامیاب بناتے ہیں اور سماج میں ایک ناکام انسان بنے پھرتے ہیں  اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو  امتحان گاہوں کے پاس مسلمانوں کا بڑا مجمع طلبہ کی امداد کے لئے آپ کو کھڑا نظر آتا ہے جب یہی بچے بارویں جماعت تک پہنچتے ہیں تو ان کے نتائج کیا آتے ہیں ، 50،60،70 اس سے زیادہ نمبرات تو کوئی محنتی بچہ ہی حاصل کر لیتا ہے ورنا عموماً یہی نتائج آتے ہیں،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نقل مکاری کی سماجی برائی کو تعلیمی نظام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے  دور کیا جائے اور ملک اور قوم کے لئے سچے اور دیانتدار لوگ دئے جائیں۔

Monday, 18 March 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 13
سلطان محمد شاہ تغلق 1325ء سے 1351ء

آفتاب عالم دستگیر پٹیل  کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

غیاث الدین تغلق کی وفات کے بعد اس کا بیٹا الغ خان محمد تغلق کے لقب سے تخت نشین ہوا وہ بڑا فاضل بادشاہ تھا فلسفہ و ریاضی کا اسکالر علم نجوم کا ماہر فارسی کا اعلیٰ شاعر اور کمال کا خوش نویس تھا ۔ اس نے رعایا کے لئے اسپتال اور یتیم خانے جاری کیے وہ اپنے مذہب کا بڑا پابند تھا،تاہم اس کا سلوک ہندو رعایا کے ساتھ بہت اچھا تھا اس کے دربار میں چین خراسان ترکستان اور فارس کے لوگ موجود تھے مشہور مورخ ابن بطوطہ اس کے عہد میں ہندوستان میں آیا تھا ۔ مگر ان اوصاف کے ہوتے ہوئے اس کے عہد کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کوتاہ اندیش سخت گیر اور ضدی تھا،مزاج ایسا کہ ذرا سی مخالفت بھی برداشت نہ کرتا تھا،اور معمولی سی بات پر غصہ میں آکر رعایا کو سخت سزائیں دیتا تھا اس لئے کہا گیا ہے کہ محمد تغلق کا چال چلن متضاد اور صاف کا مجموعہ
 تھا Mixture Of Opposite 
محمد تغلق ہمیشہ نئی نئی اسکیمیں سوچتا اور رعایا کو ان پر عمل کرنے کو کہتا مگر عام لوگ ان اسکیموں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اس لئے ان کو بڑی مصیبتیں اٹھانی پڑتی تھی اس وجہ سے محمد تغلق بطور ایک  بادشاہ کے ناکام ثابت ہوا اور لوگوں کی نظروں میں گر گیا اور بد نام ہو گیا ۔ ملک کا امن تباہ ہو گیا اور سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں اس کی فضول اسکیموں کی وجہ سے بعض مورخ محمد تغلق کو پڑھا لکھا بیوقوف بھی کہتے ہیں ۔

محمد تغلق کی عجیب تجویزیں

  ۔ دہلی کی بجائے دیو گری دارالخلافہ 1
محمد تغلق کی سلطنت بہت وسیع تھی اس کا خیال تھا کہ کسی مرکزی مقام کو دارالخلافہ بنایا جائے چنانچہ اس نے دہلی کی بجائے دیو گری کا اپنا دارالخلافہ بنایا اور اس کا نام دولت آباد رکھا دہلی سے دولت آباد کی درمیان سات سو میل لمبی سڑک تیار کی گئی اس نے امیروزروں کے علاوہ دلی کے تمام لوگوں کو نئے دارالخلافہ میں جانے کا حکم دیا اتنے لمبے سفر سے رعایا کو بڑی پریشانی ہوئی جب نئے دارالخلافہ میں دل نہ لگا تو بادشاہ نے ان کو دہلی واپس جانے کا حکم دیا ہزاروں آدمی سفر کی مشکلات سے راستہ میں ہی مرگئے ۔

۔ ایران اور چین پر لشکر کشی 2
بادشاہ نےایران کو فتح کرنے کا خیال کیا چنانچہ اس کام کے لیے چار لاکھ فوج جمع کی اتنی فوج کو تنخواہیں دینا مشکل ہو گیا اس لئے ایران کی فتح کا ارادہ چھوڑ دیا اور فوج کو منتشر کردیا جس کے بعد بادشاہ نے ایک لاکھ فوج کوہ ہمالیہ کے دشوار گزار دروں کی راہ چین کو فتح کرنے کے لئے بھیجی بہت سے سپاہی برف اور سردی کی وجہ سے راستہ میں ہی مر گئے ۔ جو بچ گئے انھوں نے چین کے علاقے پر حملہ کیا مگر شکست کھائی جو بچ کر واپس لوٹے بادشاہ نے انھیں قتل کروا دیا ۔

۔ تانبے کے سکے 3

محمد تغلق کی فضول تجاویز سے شاہی خزانہ خالی ہو گیا چنانچہ اس نے چاندی کی بجائے تانبے کا سکہ چلایا اور حکم دیا کہ ان تانبے کے سکوں کی قیمت چاندی کے سکوں کے برابر ہے لوگوں نے گھر گھر جعلی سکے بنانے شروع کر دیے ۔جس سے ان سکوں کی ساکھ جاتی رہی غیر ملکی تاجروں نے اس کے لینے سے انکار کردیا ۔ اس طرح ملک کی تجارت بند ہوگئی آخر بادشاہ نے یہ سکے واپس لے لیے اور ان کی بجائے سونے اور چاندی کے سکے دے دی ہے اس تبادلہ سے شاہی خزانہ کو بہت نقصان پہنچا ۔

۔ لگان کا بڑھانا 4
جب بادشاہ کی فضول تجویزوں سے شاہی خزانہ خالی ہو گیا تو بادشاہ نے مالی خسارہ کو پورا کرنے کے لئے زمین کا لگان بڑھا دیا اور مالیہ وصول کرنے میں اتنی سختی سے کام لیا کہ زمیندار ڈر کے مارے کھڑی فصلوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں بھاگ گئے،بادشاہ نے ان کو گرفتار کرکے قتل کروادیا اس سے ملک کی زراعت تباہ ہوگئی اور قحط پڑ گیا اور لوگ بھوکے مرنے لگے جب بادشاہ کو ان کی بدحالی کا علم ہوا تو انہیں واپس بلایا لگان اور ٹیکس معاف کردیئے نئے کنوئیں بنوائے اور شاہی خزانے سے روپیہ قرض دیا مگر اس سے بھی لوگوں کی حالت بہتر نہ ہوئی ۔ 

محمد تغلق کی پالیسی کا نتیجہ
بادشاہ کی ناقابل عمل تجویزوں سے ملک کی زراعت تباہ ہو گی خزانہ خالی ہو گیا بادشاہ بد نام اور سلطنت کمزور ہوگئی،اور ملک کے چاروں طرف بغاوتیں شروع ہوگی بنگال اور دکن کے صوبے ہمیشہ کے لئے خود مختار ہو گئے دکن میں مسلمانوں کی بہمنی سلطنت اور ہندوؤں کے وجے نگر کے دونوں سلطنتیں قائم ہو گئ تلنگانہ اور کرناٹک کے ہندو راجے بھی خود مختار ہو گئے پنجاب اور سندھ کے صوبے بھی باغی ہوگئے اور گجرات کا صوبہ بھی آزاد ہو گیا ۔

وفات
 ء میں محمد تغلق سندھ کی بغاوت دور کرنے کے لئے جا رہا تھا کہ راستہ میں موسمی بخار سے بیمار ہو گیا اور سندھ کے علاقے ٹھٹھ میں انتقال کر گیا1351

Saturday, 2 March 2019


محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 12
خاندان تغلق
سلطان غیاث الدین تغلق شاہ 1320 سے 1325

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

شمار
نام سلاطین
عہدِ حکومت
1
8 ستمبر 1321ء – فروری 1325ء
2
فروری 1325ء – 20 مارچ 1351ء
3
23 مارچ 1351ء – 20 ستمبر 1388ء
4
20 ستمبر 1388ء – 14 مارچ 1389ء
5
15 مارچ 1389ء – 1390ء
6
1390ء  – 1393ء
7
مارچ/ اپریل 1393ء
8
1393ء  – 1394ء
9
1394ء  – فروری 1413ء
10
1399ء  – 1412ء

ہندوستان کے نئے اور پرانے مورخین میں سے کسی نے بھی خاندان تغلق کے حسب و نسب کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی اور نہ ہی اس نامور خاندان کے آباؤ اجداد کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کی ۔ جب سلطان عصر ابراہیم عادل شاہ نے مورخ فرشتہ کو بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے ابتدائی دور حکومت میں لاہور بھیجا تو اس نے وہاں کے ان اہل علم اور باذوق لوگوں سے جو خاندان شاہی سے متعلق رہے تھے اور دلچسپی رکھتے تھے خاندان تغلق کے حسب نسب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں ۔ لیکن اسے بھی صرف یہی معلوم ہوسکا کہ کسی تاریخ میں بھی اس خاندان کا حال مفصل طور پر نہیں لکھا گیا یہ عام روایت ہے کہ ملک سلطان غیاث الدین بلبن کا ترکی غلام تھا اور غیاث الدین تغلق اس کا بیٹا ملک تغلق نے خاندان بھٹ سے رشتہ ازدواج قائم کیا اور اسی خاندان کی لڑکی سے شادی کی جو غیاث الدین کی ماں تھی ۔

لفظ تغلق کا ماخذ

جیسا کہ ملحقات ناصری میں بیان کیا گیا ہے کہ لفظ "تغلق" ترکی لفظ "قنلغ" سے نکلا ہے بلکہ یہ کہہ دینا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستانیوں نے کثرت استعمال سے قنلغ لفظ کو توڑ مروڑ کر تغلق بنا دیا اور بعض لوگ اس لفظ کا تلفظ قتلو ادا کرتے ہیں ( تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 293 

 
غیاث الدین تغلق جس کا اصلی نام غازی بیگ تھا لاہور کا صوبے دار تھا ۔ اس نے خسرو خان کو قتل کرکے  خلجی خاندان کا خاتمہ کیا اور دہلی کا تخت حاصل کرکے تغلق خاندان کی بنیاد ڈالی وہ بڑا مدبر تجربہ کار اور منتظم بادشاہ تھا اس کے تخت پر بیٹھتے ہی ملک میں امن قائم ہو گیا اس نے مغلوں کے حملوں سے ملک کی حفاظت کی اس نے اپنے بیٹے جونا خان کو دکن میں بھیج کر وارنگل اور دیگر کئی ریاستوں کو دوبارہ مطیع کیا ۔  1325 میں بنگال میں بغاوت ہو گئی بادشاہ خود اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے وہاں پہنچا جب بغاوت فرو کر کے بادشاہ وہاں واپس پہنچا تو اس کے بیٹے جونا خان نے دہلی سے کچھ فاصلہ پر اس کے استقبال کے لئے ایک لکڑی کا محل تیار کرایا بادشاہ اس میں کھانا کھا رہا تھا کہ محل کی چھت اچانک گر پڑی اور وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ دب کر مر گیا ۔ بعض مورخ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب جونا خان کی تخت حاصل کرنے کے لئے شرارت تھی اورا یہ حادثہ اتفاقیہ نہ تھا اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا جونا خان محمد تغلق کے لقب سے بادشاہ بنا ۔ ۔ ۔

Tuesday, 26 February 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 11
علاؤالدین خلجی 1296 سے 1315

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349



علاؤالدین خلجی جلال الدین خلجی کا بھتیجا اور داماد تھا وہ بڑا چالاک شخص تھا اپنے چچا جلال الدین کو قتل کر کے تخت پر بیٹھا دہلی میں پہنچ کر اس نے اپنی فوج اور عام لوگوں میں دل کھول کر روپیہ تقسیم کیا تاکہ وہ اس کے چچا کے قتل کو بھول جائیں اس نے بیس سال حکومت کی وہ ایک قابل اور زبردست بادشاہ ثابت ہوا وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے دکن کو فتح کیا۔۔

فتوحات

علاؤالدین نے تخت نشین ہوتے ہی اپنی سلطنت کو وسیع کرنا شروع کیا اس کے فتوحات حسب ذیل ہیں

گجرات

1290 میں علاؤالدین کے جرنیل الف خان نے گجرات پر حملہ کیا وہاں کا راجہ کرن بھاگ نکلا گجرات فتح ہوا اور راجہ کرن کی بیوی کملا دیوی دہلی میں لائی گئی جہاں اس کی شادی علاوالدین سے ہوگء اس حملہ میں شہر کھمبایت سے شاہی فوجوں کو ایک ہندو غلام ہاتھ آیا جس کا نام ملک کافور تھا اس نے اپنی قابلیت سے اتنی ترقی کی کے بادشاہ کا سپاہ سالار بن گیا اور بعد میں اس نے بادشاہ کے لیے دکن کو فتح کیا۔۔

رنتھمبور
1300 میں علاؤالدین نے رنتھمبور کے قلعہ کو فتح کیا۔۔

چتوڑ

1301 میں علاؤالدین نے راجہ بھیم سین والئے چتوڑ کی خوبصورت رانی پدمنی کو حاصل کرنے کے لئے چتوڑ پر حملہ کیا راجہ اور بہادر راجپوتوں نے بڑی بہادری دکھلائی اس لیے علاؤالدین کامیاب نہ ہوا دو برس بعد 1303 میں علاوالدین نے پھر ایک زبردست فوج کے ساتھ چتوڑ پر حملہ کیا راجپوت بڑی بہادری سے لڑے مگر ہار گئے رانی پدمنی دیگر راجپوت عورتوں کے ساتھ چتا میں بیٹھ کر زندہ جل گئی

جیسلمیر، مالوہ، چندیری

1303 میں علاؤالدین نے آٹھ مہینہ کے محاصرے کے بعد جیسلمیر کا قلعہ فتح کیا یہاں بھی راجپوتوں نے بہادری دکھائی اور ہزاروں راجپوت لڑائی میں مارے گئے پھر اس نے مالوہ اور چندیری کی راجپوت ریاستوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔۔

دکن کی فتح

1306 سے 1311 شمالی ہند کی فتح کے بعد علاؤالدین نے اپنے سپاہ سالار ملک کافور کو دکن کی فتح کے لیے روانہ کیا اس نے 1307 میں دیوگری پر حملہ کرکے اسے فتح کیا اس لڑائی میں کملا دیوی کی لڑکی دیول دیوی ماں کی خواہش کے مطابق دہلی پہنچائی گئی جہاں اس کی شادی علاؤالدین کے بیٹے خضر خان سے کردی گئی اس کے بعد ملک کافور نے 1310 وارنگل اور 1311 میں دوارسمدراور کی ریاستوں کو فتح کیا اور بے شمار دولت ہاتھی گھوڑے لے کر دہلی واپس لوٹا ان فتوحات سے علاوالدین کی سلطنت پھیل گئی۔

مغلوں کے حملے

علاؤالدین کے عہد میں مغلوں نے ہند پر پانچ دفعہ حملے کئے اور پانچوں مرتبہ پسپا ہوئے آخری دفعہ کوئی دو لاکھ مغل دہلی تک آ پہنچے لیکن علاؤالدین نے انہیں ایسی شکست دی کہ پھر انھوں نے اس کے عہد میں کبھی حملہ نہ کیا۔۔

علاؤالدین کی پالیسی اور نظام سلطنت

جنگی پالیسی

علاؤالدین کی جنگی پالیسی کا مقصد ملک کو مغلوں کے حملوں سے بچانا اور تمام ہندوستان کو فتح کرنا تھا اس مقصد کے لیے اس نے ایک زبردست مستقل فوج تیار کی نئے نئے قلعے تعمیر کرائے پرانے قلعوں کی مرمت بھی کرائی گئی فوجی قواعد بنائے اور گھوڑوں کو داغ دینے کا طریقہ جاری کیا جاگیرداروں اور سرداروں کو باقاعدہ فوج رکھنے کا حکم دیا سپاہیوں کی تنخواہیں مقرر کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جنگی پالیسی سے اس کے عظیم الشان سلطنت تمام ہندوستان پر پھیل گئی اور مغلوں کی روک تھام بھی ہوگی۔۔

اندرونی پالیسی

علاؤالدین کے عہد حکومت کے شروع میں بہت سی بغاوتیں ہوئیں اور مغلوں نے بھی کئی حملے کیے اس کی پالیسی کا مقصد ملک کو ان حملوں اور بغاوتوں سے محفوظ رکھنا اور سلطنت میں امن قائم کرنا تھا اس لیے اس نے مندرجہ ذیل طریقے سوچے

اس نے شراب پینا اور بیچنا قانوناً منع کردیا۔

اس نے بڑے بڑے امیروں کی آزادی چھین لی وہ بادشاہ کی منظوری کے بغیر آپس میں رشتے ناطے نہیں کر سکتے تھے اور نہ دعوت دے سکتے تھے اس طرح سازشوں کا خاتمہ ہو گیا۔

اس نے مکانات اور مال مویشی پر ٹیکس لگائے تاکہ سرکاری آمدنی بڑی

اس نے مالیہ جنس کی صورت میں وصول کیے جانے کا حکم دیا اور ملک میں اناج سستا رکھنے کے لیے دلی میں اناج کے ذخیرے کے گودام بنوائے۔۔

اس نے ملک بھر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے ایک زبردست جاسوسی محکمہ جاری کیا جو ہر بات کی اطلاع بادشاہ کو پہنچاتے تھے اس انتظام سے بڑے بڑے وزیر امیر گھروں کے اندر بھی معمولی بات چیت کرتے ہوئے ڈرتے تھے

اس نے ہر چیز کا نرخ اور تول کے بٹے مقرر کیے اور افسر تعینات کیے جن کا کام ان میں کمی بیشی کرنے والوں کو سزا دینا تھا

اس نے شاہی خزانہ بھرنے کے غرض سے بہت سے امیروں اور وزیروں سے جائدادیں چھین لی جاگیر ضبط کر لی اور وظیفے بند کردیئے

علاؤالدین کا چال چلن

علاؤالدین خلجی بہادر سالار اور اعلی درجہ کا منتظم بادشاہ تھا خود ان پڑھ تھا مگر علماء کا بڑا قدر دان تھا انتظام سلطنت میں کسی اصول کا پابند نہ تھا بلکہ اپنی ضرورت کو ہی قانون سمجھتا تھا وہ قدرے ضدی بھی تھا۔ وہ تجربہ کار جرنیل اور فنون جنگ میں ماہر تھا اپنی بہادری قابلیت اور زبردست فتوحات کی وجہ سے وہ ہندوستان کے بڑے بادشاہوں میں گنا جاتا ہے

ملک کافور

ملک کافور دراصل ہندو غلام تھا جو علاؤالدین کوفتح گجرات کے وقت شہر کھمبایت سے ہاتھ آیا تھا وہ بعد میں مسلمان ہو گیا اس نے اپنی خداداد لیاقت کی وجہ سے بہت ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے علاوالدین خلجی کا سپہ سالار بن گیا علاوالدین کے عہد میں دکن کی فتوحات اس کی بہادری کا نتیجہ تھی اس نے سب سے پہلے ماراشٹر کو فتح کیا پھر دیوگری پر دوبارہ حملہ کرکے 1305 میں راجہ رام دیو کو شکست دی اور کملا دیوی کے خواہش کے مطابق اس کی لڑکی دیول دیوی کو اس کے پاس پہنچا دیا 1309 میں اس نے وارنگل کو فتح کیا اور 1311 میں عین جنوب کے تامل ریاستوں کو فتح کرکے راس کماری تک پہنچا جہاں اس نے فتح کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور بے شمار دولت لے کر واپس دہلی آ پہنچا

علاؤالدین کا انتقال

گجرات کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بادشاہ نے ملک نائب کی رائے سے سید کمال الدین کرک کو روانہ کیا لیکن الغ خان کی حمایت و اور طرفداروں نے کمال الدین کو پکڑ کر بڑی بری طرح موت کے گھاٹ چتور کے حاکم نے بھی بغاوت کی اور شاہی ملازموں کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر انہیں قلعے سے نیچے پھینک دیا دکن میں ہرپال دیو نے جو رام دیو کا داماد تھا ہنگامہ کھڑا کیا اور بہت سے شاہی تھانوں کو تباہ و برباد کردیا علاؤالدین ان خبروں کو سن سن کر دل ہی دل میں بل کھا کر رہ جاتا غم و الم کی اس فضا میں اس کی صحت کی دیوار گرتی ہی چلی گئی اور آخرکار 6 شوال 716 ہجری کی رات کو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی بے شمار زروجواہر اور دولت جو محمود غزنوی کو بھی میسر نہ ہوئی اور جسے علاؤالدین نے بڑی محنت سے جمع کیا تھا دوسروں کے لئے چھوڑ گیا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بادشاہ کی موت زہر خورانی سے ہوئی تھی ملک نائب نے اسے زہر دیا تھا واللہ اعلم بالصواب تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 278

خاندان خلجی کا خاتمہ

ملک کافور کے قتل کے بعد امرای سلطنت نے شہزادہ مبارک کو تخت پر بٹھایا۔ مبارک خاندان خلجی کا بڑا منحوس اور نالائق بادشاہ تھا اس لیے ملک میں بدنظمی پھیل گئی وہ بڑا عیاش پسند تھا اس لئے اس اس نے سلطنت کا تمام کام اپنے ایک منظور نظر غلام خسرو خان کو سونپ کر اسے وزیراعظم مقرر کردیا۔ خوبصورت خان نے بادشاہ مبارک کو 1318 میں قتل کردیا اور خود ناصر الدین کے لقب سے بادشاہت کرنے لگا آخر لوگوں نے تنگ آکر غیاث الدین تغلق حاکم پنجاب کو دہلی پر حملہ کرنے کے لئے بلایا اس نے ناصرالدین کو قتل کرکے خلجی خاندان کا خاتمہ کردیا


Tuesday, 19 February 2019


محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 10
جلال الدین فیروز شاہ خلجی 1290 سے 1296

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

جلال الدین خاندانی خلجی کا بانی تھا وہ ستر سال کی عمر میں کیقباد کو قتل کرکے دہلی کے تخت پر بیٹھا وہ بڑا کابل جرنیل اور دلیر بادشاہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا ۔ اس لئے اس کے عہد میں بغاوتیں ہونےلگیں اس کے عہد میں مغلوں نے بھی ہندوستان پر کئی حملے کیے لیکن جلال الدین نے انہیں شکست دی اس کے عہد میں کچھ مغل دہلی کے قریب ہی آباد ہو گئے اور انہوں نے مغلپورہ نام کی 
بستی بسائی جلال الدین نے مالوہ پر بھی حملہ کیا مگر ناکام رہا اس کے عہد کا سب سے مشہور واقعہ دکن کی مہم ہے ۔


شمار
نام سلاطین
عہدِ حکومت
1
13 جون 1290ء – 20 جولائی 1296ء
2
20 جولائی 1296ء – 4 جنوری 1316ء
3
5 جنوری 1316ء – 13 اپریل 1316ء
4
14 اپریل 1316ء – مئی 1320ء
5
مئی 1320ء – 8 ستمبر 1321ء

لفظ خلجی کی اصل

جب غوری فرمانرواؤں اور ان کے پروردہ غلاموں نے ہندوستان فتح کیا تو خلجیوں کے گروہ کے گروہ ہندوستان آکر شاہی ملازمتیں اختیار کرنے لگے ان خلجیوں میں سے بعض افراد نے بہت اقتدار اور رسوخ حاصل کیا اور شاہی امراء اور اراکین سلطنت کے معزز عہدوں تک پہنچے ۔ ان مقتدرامرائے خلجی میں سلطان جلال الدین فیروز شاہ اور سلطان محمود خلجی مندوی کے باپ بھی تھے ۔ متذکرہ بالا مورخ کا بیان ہے کہ کالج خان کی نسبت سے ان امراء کو عام طور پر قالجی کہا جاتا تھا کثرت استعمال سے الف گر گیا اور "ق"  کا "خ" سے تبادلہ ہو گیا اور یوں کالجی سے خلجی بن گیا ۔ لیکن تاریخی سلجوقیاں کے مصنف کی رائے اس سے مختلف ہے اس کا بیان ہے کہ ترک بن یافث کے 11 بیٹوں میں سے ایک کا نام خلج تھا خلجی اسی کی اولاد کو کہا جاتا ہے مورخ فرشتہ بھی اسی رائے کو تسلیم کرتا ہے اس لیے کہ اگر نظام الدین کے بیان کو مان لیا جائے تو پھر خلجیوں کا وجود چنگیزی احد کے بعد ثابت ہوتا ہے اور بالکل غلط ہے کیونکہ معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر ناصرالدین اور سلطان محمود غزنوی کے بہت سے امیر خلجی کہلاتے تھے اور ایک بات مسلم ہے کہ یہ دونوں حکمران چنگیز سے پہلے گزرے ہیں ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قالج خان خود بھی خلجی خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور سلطان جلال الدین دہلوی اور سلطان محمود مندوی اس کی نسل سے ہوں ۔ تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 218

جلال الدین کا قتل

جلال الدین خلجی کشتی میں بیٹھا ہوا کلام مجید کی تلاوت کرتا رہا عصر کے وقت کشتی کنارے سے لگے بادشاہ کشتی سے اترا علاوالدین نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور اپنا سر رکھ دیا جلال الدین نے پیار سے اس کے گال پر ایک ہلکی سی چپت ماری  اور بڑے لطف آمیز لہجے سے کہا میں نے تجھے پیار اور لاڈ سے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اپنے حقیقی بیٹوں سے زیادہ تجھے عزیز رکھا ہے تیرے بچپن کی بو اب تک میرے کپڑوں سے نہیں گئی پھر بھلا تیرے دل میں خیال کیسے پیدا ہوا کہ میں  تیرے خلاف ہوں اور تیرا برا چاہتا ہوں یہ کہہ کر بادشاہ نے علاوالدین کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے کر کشتی کی طرف روانہ ہوا علاوالدین نے اس موقع پر ان لوگوں کو اشارہ کیا جو بادشاہ کو قتل کرنے کے لئے متعین کئے گئے تھے سمانہ کے ایک ذلیل سپاہی نے جس کا نام محمود بن سالم تھا بادشاہ پر تلوار کا وار کیا بادشاہ زخم کھا کر کشتی کی طرف دوڑا اور کہا اے بدبخت علاوالدین تو نے کیا کیا ابھی جلال الدین کشتی تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اختیارالدین اس کی طرف لپکا اختیارالدین جو جلال الدین کا پروردہ نعمت تھا اس نے بادشاہ کو پچھاڑ کر اس کا سر کاٹ لیا اس وقت غروب آفتاب کا وقت تھا بادشاہ کا سر لے کر اختیار الدین علاء الدین کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ کے وہ ہمراہی جو کشتی میں بیٹھے تھے کہ ملک خرم وغیرہ انہیں بھی علاوالدین کے حواریوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 236

کرناٹک اردو اکادمی ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔

کرناٹک اردو اکادمی  ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری بلگام کرناٹک 8105493349 "ہر اردو اکادمی اردو کا ای...