ذریعہ تعلیم
اردو یا انگریزی ؟؟
لارڈ میکالے قسط نمبر 01
آفتاب عالم
دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام
کرناٹک
8105493349
"روسو کے مطابق تعلیم ایسی چیز نہیں جو بچوں کے دماغوں میں ٹھوس
دی جائے بلکہ وہ پوشیدہ قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی نشوونما ہے"
اس جملے کو
پڑھیں اور اپنے سامنے ان سارے انگریزی میڈیم اسکولوں کا تصور کریں جہاں بچے کا داخلہ
تین چار سال کی عمر میں کروایا جاتا ہے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہر انگریزی
میڈیم اسکول میں معلومات کو زبردستی ٹھونسنے کا کام ہی کیا جا تا ہے جس سے بچوں کی
صلاحیتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اور اس کے ذمہ دار صرف
اور صرف والدین اور سرپرست ہیں جو اپنے بچوں کو ایسے دلدل میں دھنسا رہے ہیں جہاں ان
کی صلاحیتیں روزبروز دھنستی ہی چلی جارہی ہیں،دوسروں کی دیکھا دیکھی بچوں کو انگریزی
میڈیم کے حوالے کرنا نادانی نہیں بے وقوفی ہے ۔ موجودہ زمانے کے والدین اور سرپرستوں
پر انگریزی کا ایسا بھوت سوار ہے جو آسانی سے نہیں اتر سکتا اچھے اچھے لوگ اس
جھانسے مین پھنس رہے ہیں ،ان کی خواہش ہے کہ ان کا بچہ فرفر انگریزی بولے ارے بھائی!
انگریزی بولنا کونسی فخر کی بات ہے یہ تو لندن اور امریکہ کا بھنگی بھی بول لیتا ہے۔
اردو سے ہو
کیوں بیزار انگلیش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی
یہ رٹا یار ٹوینکل ٹوینکل لٹل اسٹار
اگر دیکھا
جائے تو آج بھی ہم ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام ہیں مجھے ہندوستان کے گورنر جنرل کی
کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون ” لارڈ میکالے” کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری
1835 عیسوی کے خطاب سے اقتباس یاد آتا ہے
"میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی
شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں، میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی
اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو
فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو انکی ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم
اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی
شے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً
ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں"
اس زمانے میں
ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی تھی
اس تقریر کے
بعد لارڈ میکالے کو ہندوستان کے لیے نظام تعلیم مرتب کرنے کا کام سونپا گیا اور اس
نظام کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی بات کو ان اشعار میں واضح کیا جا سکتا
ہے۔
گلا تو گھونٹ
دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے
صدا لا الہ الا اللہ
(اقبال)
چھوڑ لٹریچر
کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد
سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی
زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی،
کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
(اکبر الہ آبادی)
لارڈ میکالے
نے اپنے والد کو 1836 میں ایک خط لکھا جس کا حسب ذیل اقتباس عبرت انگیز ہے
"ہمارے انگریزی اسکول دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور اب
حالت یہ ہو گئی ہے کہ طلبا کے لیے گنجائش نکلنے مشکل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس تعلیم کا بہت زیادہ اثر ہندوؤں پر ہو
رہا ہے کوئی ہندو انگریزی پڑھنے کے بعد اپنے مذہب پر فی الواقع ایمان نہیں رکھ سکتا
مجھے پورا اعتماد ہے کہ اگر ہماری تعلیمی پالیسی کامیاب ہوئی تو بنگال میں کوئی بت
پرست باقی نہ رہے گا یہ سب فطری طور سے ہوگا بغیر کسی مذہبی وعظ پر مداخلت کے"
اس طرح صاف
معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے لئے انگریزی کی شکل میں جو ایک بین الاقوامی زبان کو
ذریعہ تعلیم تجویز کیا جا رہا تھا وہ درحقیقت نہ صرف ایک تعلیمی پالیسی بلکہ سوچی سمجھی
تہذیبی اسکیم کا جز تھا جس کی زد میں مذہبی عقیدہ تک آجاتا تھا اور ستم ظریفی یہ ہے
کہ سب کچھ اس دعوے کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔
(طرز تعلیم
پروفیسر عبد المغنی ص 7)
جدید مغربی
تہذیب کی اصلیت اردو ادب کی دو عظیم شخصیتوں کو آج سے تقریبا ایک صدی قبل ہی معلوم
تھی جب اس کے پرفریب چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا اور اس کے گرد حالہ کئے ہوئے اقتدار
مطلق کی تیز روشنی نگاہوں کو خیرہ کر رہی تھی، اکبر الہ آبادی نے اپنے طنز و مزاح کی
تیز نشتر کی نوک سے چھید چھید کر مغربی تعلیم و تہذیب کے ایک ایک فتنے کو نشانہ بنایا،یہ
زیادہ تر اس تعلیم و تہذیب کے اثرات کا تنقیدی جائزہ تھا جس میں انہوں نے کالجوں کو
مشرق کی آئندہ نسلوں کی قتل گاہ قرار دے دیا اور برطانوی اقتدار کو فرعون سے بھی زیادہ
چالاک ظالم ثابت کردیا،اقبال نے بعض وقت اکبر ہی کہ ظریفانہ رنگ میں انگریزی تعلیم
پر طنز کرنے سے آگے بڑھ کر نظریاتی طور سے مغربی تعلیم کے تصورات و مضمرات پر سخت تنقید
کی،بانگ درا کے ظریفانہ کلام کا یہ مشہور قطعہ ایک بار پھر سنئیے اور اس کے حقیقی مفہوم
پر غور کیجئے ۔
لڑکیاں پڑھ
رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم
نے فلاح کی راہ
روش مغربی
ہے مدنظر
وضع مشرق کو
جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے
گا کیا سین ؟
پردہ اٹھنے
کی منتظر ہے نگاہ
ان اشعار میں
ہندوستانی یا مسلم لڑکیوں کے کالج میں جاکر اور مخلوط کلاسوں میں بیٹھ کر انگریزی پڑھنے
کے نتائج کو "روش مغرب" کے ساتھ "وضع مشرق" کے مقابلے سے واضح
کیا گیا ہے،اور مخلوط کالجوں کی تعلیم کو تھیٹر کا تماشا قرار دیتے ہوئے بڑے لطیف انداز
میں انگریزی تعلیم کے اثر سے پیدا ہونے والی بے پردگی اور بے حیائی کی طرف اشارہ کیا
گیا ہے بانگ درا ہی میں ایک سنجیدہ نظم تعلیم اور اس کے نتائج کے عنوان سے درج ہے
۔
خوش تو ہیں
ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے
نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے
تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی
کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز
کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی
ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ
(طرز تعلیم
پروفیسر عبد المغنی ص 21)
Masha allah, sabaq aamoz aur padhne laayak tehreer.
ReplyDeleteAaj bhi musalmano ka ek bada tabqa apne baccho ko urdu me taalim dena chahta hai lekin, hame zaroorat hai ki urdu schools ka raabta jadeed technology se karaaye, asaatiza aur school ke miyaar ko badhaai.
Allah hame sahi tofeeq de.
Very informative bhai👍
ReplyDeleteReally very informative, but it's a appeal plz also publish it's translation in english, viewers like me find it significantly difficult to simultaneously translate and read it!
ReplyDelete